کون بنے گا کروڑپتی کا ایک یادگارلمحہ
‘کون بنے گا کروڑ پتی’ ١٦ویں سیزن کے ایک ایپی سوڈ میں ڈاکٹر نیرج سکسینہ نامی سائنٹسٹ نے حصہ لیا جو کولکتہ کی ایک یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہیں اور ڈاکٹر اے پی جے عبدلکلام کے ساتھ کام کرچکے ہیں.
ڈاکٹر نیرج نے اعتماد کے ساتھ آغاز کیا، کمپیوٹر کے ہر سوال کا جواب بآسانی دیا، ان کی ذہانت حیران کن تھی، وقفے سے پہلے وہ ٣.٢ لاکھ روپے جیت چکے تھے. کچھ دیر بعد امیتابھ بچن نے اگلا سوال پیش کیا: “ٹھیک ہے ڈاکٹر، اب گیارہواں سوال آرہا ہے… اور وہ یہ ہے..”
لیکن تب تک اچھا کھیل رہے ڈاکٹر نیرج دوسرا فیصلہ کرچکے تھے، انہوں نے امیتابھ سے کہا “سر، میں چھوڑنا چاہوں گا۔” امیتابھ حیران رہ گئے، مدمقابل اچھا کھیل رہا ہے، اس کی لائف لائنز باقی ہیں اور بظاہرا لگتا ہے اہنے علم و قابلیت سے وہ ١ کروڑ روپے بآسانی جیت سکتا ہے لیکن اچانک کیا بات ہوگئی بندہ ہاٹ سیٹ چھوڑنا چاہتا ہے؟
نیرج نے سکون سے جواب دیا ’’یہاں دوسرے مقابلہ کرنے والے انتظار کر رہے ہیں، وہ مجھ سے بہت چھوٹے ہیں، وہ بھی موقعہ پانے کے مستحق ہیں، میں اچھی رقم جیت چکا ہوں، میرے پاس جو ہے وہ کافی ہے، مجھے مزید ضرورت نہیں ہے.”
امیتابھ گنگ ہوگئے، اسٹوڈیو ایک لمحے کے لیے خاموش ہوگیا، پہلے تو میری بھی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ خودنمائی و خودغرضی کے اس نفسا نفسی دور میں، جہاں عوامی ملکیت پر کنڈلی مار کر بیٹھ گئے مذہبی پرچارک، پرسارک اور مذہب و اخلاقیات کے علمبردار مرنے سے پہلے اپنی سیٹ نہیں چھوڑنا چاہتے، ایسے میں یہ بندہ ایسا کیسے سوچ سکتا ہے؟
میں نے اپنے اسکرین پر ڈاکٹر نیرج کو خراج تحسین پیش کیا، آگے امیتابھ بولے ’’مجھے آج آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے، اتنے شائستہ شخص سے ملنا نایاب ہے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے۔”
ایپیسوڈ دیکھتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی کہ موقع ملنے کے باوجود ایک نان مسلم ڈاکٹر نے دوسروں کو کھیلنے کا موقعہ دینے کا فیصلہ کیا، اس پروگرام میں ایسی کوئی دوسری مثال کم از کم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے.
ڈاکٹر نیرج کے جانے کے بعد ایک نوجوان لڑکی ہاٹ سیٹ پر آئی، اس نے اپنی کہانی بیان کی “میرے والد نے ہمیں اس لیے نکال دیا کہ ہم تین بیٹیاں ہیں، اب ہم آشرم میں رہتے ہیں…‘‘
.مجھے احساس ہوا ڈاکٹر نیرج اگر سیٹ نہ چھوڑتے تو اس لڑکی کو کھیلنے کا موقع نہ ملتا، ڈاکٹر سکسینہ کے فیصلے نے معابعد ایک کمزور لڑکی کو کچھ پیسہ کمانے کا موقع فراہم کردیا.
ڈاکٹر نیرج سے آج میں نے یہ سیکھا کہ ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کب اور کہاں رک جانا ہے؟ اور کہاں کس جگہ کسی دوسرے کو موقع دینا ضروری ہے؟ ڈاکٹر نیرج نے مجھے احساس دلایا کہ خود غرضی چھوڑ دینا اجتماعی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے.